لیکن اسلام جیت گیا۔۔


۔۔
کاندھلہ میں ایک مرتبہ ایک زمین کا ٹکڑا تھا اس پر جھگڑا چل پڑا، مسلمان کہتے تھے کہ یہ ہمارا ہے، ہندو کہتے تھے کہ یہ ہمارا ہے، چنانچہ یہ مقدمہ بن گیا۔ انگریز کی عدالت میں پہنچا، جب مقدمہ آگے بڑھا تو مسلمانوں نے اعلان کر دیا کہ یہ زمین کا ٹکڑا اگر ہمیں ملا تو ہم مسجد بنائینگے، ہندوﺅں نے جب سنا تو انہوں نے ضد میں کہہ دیا کہ یہ ٹکڑا اگر ہمیں ملا تو ہم اس پر مندر بنائیں گے۔ اب بات دو انسانوں کی انفرادی تھی، لیکن اس میں رنگ اجتماعی بن گیا، حتیٰ کہ ادھر مسلمان جمع ہوگئے اور ادھر ہندو اکٹھے ہوگئے اور مقدمہ ایک خاص نوعیت کا بن گیا، اب سارے شہر میں قتل و غارت ہو سکتی تھی، خون خرابہ ہو سکتا تھا، تو لوگ بھی بڑے حیران تھے کہ نتیجہ کیا نکلے گا؟ انگریز جج تھا وہ بھی پریشان تھا کہ اس میں کوئی صلح و صفائی کا پہلو نکالے ایسا نہ ہو کہ یہ آگ اگر جل گئی تو اس کا بجھانا مشکل ہو جائے۔ جج نے مقدمہ سننے کے بجائے ایک تجویز پیش کی کہ کیا کوئی ایسی صورت ہے کہ آپ لوگ آپس میں بات چیت کے ذریعے مسئلہ کا حل نکال لیں، تو ہندوﺅں نے تجویز پیش کی کہ ہم آپ کو ایک مسلمان کا نام تنہائی میں بتائیں گے، آپ اگلی پیشی پر اس کو بلا لیجئے اور اس سے پوچھ لیجئے، اگر وہ کہے کہ یہ مسلمانوں کی زمین ہے تو ان کو دے دیجئے اور اگر وہ کہے کہ یہ مسلمانوں کی زمین نہیں، ہندوﺅں کی ہے تو ہمیں دے دیجئے۔ جب جج نے دونوں فریقان سے پوچھا تو دونوں فریق اس پر راضی ہوگئے۔ مسلمانوں کے دل میں یہ تھی کہ مسلمان ہو گا جو بھی ہوا تو وہ مسجد بنانے کیلئے بات کرے گا۔ چنانچہ انگریز نے فیصلہ دے دیا اورمہینہ یا چند دنوں کی تاریخ دے دی کہ بھئی اس دن آنا میں اس بڈھے کو بھی بلوا لوں گا۔ اب جب مسلمان باہر نکلے تو بڑی خوشیاں منا رہے تھے، سب کود رہے تھے، نعرے لگا رہے تھے۔ ہندوﺅں نے اپنے لوگوں سے پوچھا کہ تم نے کیا کہا انہوں نے کہا کہ ہم نے ایک مسلمان عالم کو حاکم بنا لیا ہے کہ وہ اگلی پیشی پر جو کہے گا اسی پر فیصلہ ہو گا، اب ہندوﺅں کے دل مرجھا گئے اور مسلمان خوشیوں سے پھولے نہیں سماتے تھے۔ لیکن انتظار میں تھے کہ اگلی پیشی میں کیا ہوتا ہے چنانچہ ہندوﺅں نے مفتی الٰہی بخش کاندھلوی رحمہ اللہ تعالیٰ کا نام بتایا کہ جو شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ تعالیٰ کے شاگردوں میں سے تھے اور اللہ نے ان کو سچی سچی زندگی عطا فرمائی تھی، مسلمانوں نے دیکھا کہ مفتی صاحب تشریف لائے ہیں تو وہ سوچنے لگے کہ مفتی صاحب تو مسجد کی ضرور بات کریں گے۔ چنانچہ جب انگریز نے پوچھا کہ بتائیے مفتی صاحب یہ زمین کا ٹکڑا کس کی ملکیت ہے؟ ان کو چونکہ حقیقت حال کا پتہ تھا انہوں نے جواب دیا کہ یہ زمین کا ٹکڑا تو ہندوﺅں کا ہے۔ اب جب انہوں نے یہ کہا کہ یہ ہندوﺅں کا ہے تو انگریز نے اگلی بات پوچھی کہ کیا اب ہندو لوگ اس کے اوپر مندر تعمیر کر سکتے ہیں؟ مفتی صاحب نے فرمایا جب ملکیت ان کی ہے تو وہ جو چاہیں کریں چاہے گھر بنائیں یا مندر بنائیں۔ یہ ان کا اختیار ہے چنانچہ فیصلہ دے دیا گیا کہ یہ زمین ہندوﺅں کی ہے، مگر انگریز نے فیصلے میں ایک عجیب بات لکھی‘ فیصلہ کرنے کے بعد لکھا کہ ”آج اس مقدمہ میں مسلمان ہار گئے مگر اسلام جیت گیا
اس مقدمے کے بعد  وہ ھندو جس کی زمین تھی  وہ  مفتی۔ صاحب کے پاس  آیا۔ اور  کہا  مجھے آپ کے خدا پر یقین  ہے اور مسلمان ہو گیا۔